|
|
|
|
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم
غیر منقسم ہندوستان میںشائد ہی کوئی ایسا عاقل وبالغ شخص ہوگا جس نے بہادر یار جنگ کا نام نہ سنا ہو۔ وہ لوگ جو ان کے سیاسی خیالات سے متفق نہیں تھے وہ بھی ان کی شعلہ بیانی کے قائل اور عاشق تھے۔ اور اس لئے انہیں لسان الامت کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا۔ علاوہ ازیں جناب محمد علی جناح کے دستِ راست ہونے کی وجہ سے انہیں قائد ملت اور ریاست حیدرآباد میں ان کی غیر معمولی شہرت اور اہمیت کے مد نظر کچھ لوگ انہیں آفتابِ دکن بھی کہتے اور سمجھتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی نوجوان نسل بہادر یار جنگ کے نام اور کام سے بیشتر ناآشنا ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بہادر یار جنگ کا انتقال خاصی نوعمری میں ہوگیا اور آزاد ہندوستان یا پھر پاکستان میں ایک اہم رہنما کی حیثیت سے انہیں جو کردار نبھانا تھا وہ اس سے محروم رہ گئے۔ اور۱۹۳۰ء سے لے کر نواب صاحب کے سال وفات۱۹۴۴ء تک کوئی ایسی سیاسی سرگرمیاں نہیں تھیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہو اور نواب صاحب ان سے منسلک نہ ہوں۔ حیدرآباد دکن سے لے کر صوبہ سرحد تک کی بہت سی سیاسی گتھیوں کو سلجھانے میں بہادر یار جنگ پیش پیش رہے تھے۔
اس سلسلے میں انہیں نہ صرف اپنے خطاب اور اپنی موروثی جاگیر سے ہاتھ دھونا پڑا۔ زبان بندی کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ چوں کہ ان پر ان کے مقاصد واضح تھے اور انہیں خدا کی ذات پر مکمل یقین تھا اس لئے ا ن کے عزائم میں کبھی کوئی خلل نہیں پڑنے پایا۔ انہوں نے خود اپنے ایک شعر میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا ہے ۔
چمن زار دکن کو اپنے خونِ دل سے سینچا ہے
چمٹے گا کیسے مجھ سے یہ گلستاں دیکھ لیتا ہوں
بہادر یار جنگ نے اپنی تقریروں کا آغاز محفل میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ اور شائد یہی ان کی اس معجز بیانی کا راز تھاجس کا لوہا محمدعلی جناح سے لے کر ابو اکلام آزاد تک سبھی یکساں طور پر مانتے تھے۔ مذہب سے شغف نے ان کے دل میں مسلمانوں کی فلاح بہبود کے جذبے کو غیر معمولی حدتک بیدار کردیا تھا۔ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کے بارے میں خواجہ حسن نظامی جیسی جید شخصیت کا اپنی ڈائری میں یہ لکھنا کہ
نواب نصیب یاور جنگ صاحب کے صاحبزادے بہادر خاں صاحب ملنے آئے(۱۶ جولائی۱۹۲۳ء) یہ بڑے پُر جوش ،دیندار اور دانشمند صاحبزادے ہیں اسلامی درد رگ رگ میں بھرا ہوا ہے
بجائے خود بڑی اہم بات ہے۔ آگے چل کر ان کی دینداری اور دانشمندی اور اسلام پسندی غرض کہ ہر خصوصیت نہایت ہی پرجوش انداز میں ظاہر ہوئی۔ مذہب کے واسطے سے ہی وہ کلام اقبال کے بڑے عاشق تھے۔ اور ان کی کوٹھی پر ہرہفتے درس اقبال کا پروگرام ہوا کرتا تھا۔
اقبال ہی کی طرح نواب بہادر یار جنگ بھی رسول مقبول نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زبردست عاشق اور فدائی تھے۔ انہی کا ایک شعر ہے۔
دنیائے سیاست کے کامل بھی ادھورے ہیں
ناقص بھی مدینے کا کامل نظر آتا ہے
اقبال کے اس مصرعے پر کہ
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پوری طرح عمل کرتے ہوئے بہادر یار جنگ نے اپنے سیاسی نظریات کو کامیاب بنانے کے لئے دین کا اور اسلام کو فروغ دینے کے لئے سیاست کا استعما ل کیا۔
نصف صدی قبل دکن کی سر زمین سے پروردگار عالم نے اپنے فضل سے ایک ایسے مرد قلندر' خودآگاہ وخدا بیں کو پیدا فرمایا جس کے فکر کی گہرائی بحر ذخار کے عمق کو للکار رہی تھی جو جلال وجمال کا پیکر بھی تھا اور جس کا سینہ سوز وساز کا گنجینہ بھی' جس کے قلب گداز میں جنوں بھی تھا اور عشق ومستی بھی' جس کے درد مند دل میں درد کا درماں بھی تھا۔
اس مردِحر نے نہ صرف دکن کے مسلمانوں کو جگایا بلکہ دس کروڑ بر صغیر کے انسانوں کو منزل آشنا کیا۔ اپنے آرام کی جگمگاتی زندگی سے منہ موڑ کر نرم بستر اور گرم لحاف سے نکل کر ۲۴ ہزار نفوس انسانی کو مشرف بہ اسلام کیا جس کی قیادت وسیاست ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے لئے ابرِ کرم ثابت ہوئی۔
جس قرآن آشنا کی زندگی صحابہ کے دور کا عکس جمیل تھی اس عہد آفریں'سماجی مفکر'سیاسی مدبر اور مجدد میں ٹیپو سلطان کی حریت پسندروح'جمال الدین افغانی کے خوابیدہ اسلامی انقلاب کے ارمان'مولانا محمد علی کے دل کی دھڑکن اور اقبال کے الہامی نغموں کا پیام سما گئے تھے جس کی نوائے شوق و صدائے حق نے سوتوں کو جگایا'باطل کے اندھیرے میں جس نے شعور کی روشنی سے اُجالا کیا۔ جو سرد آہوں اور گرم آنسوںون کی دولت سے مالامال تھا۔جس کے آنسو راہِ حق کے چراغ تھے۔ جس سے قوم کو منزل ملی' جس کی راہِ شوق میں دل کی اُمنگ نے اُڑ کے منزل پر پہنچنے کے لئے شاہ بازی سکھائی۔
مگر اہل جنوں کی زندگی کے مطالعہ کے لئے ہوش مندوں کی نظریں کام کی نہیں ہوتیں۔ ان کی زندگی پر صرف اہل جنوں ہی سر ہلاسکتے ہیں۔ کیوں کہ اہل جنوں کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرتے وقت کتنے ہی احساس محبت کے شبستانوں سے اپنا سر اُٹھاتے اور پیار کی نظروں سے مسکراتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو پہاڑ کا چراغ اور زمین کا نمک ہوتے ہیں ان ہی سے قوم کو حیات نو کا راستہ اور منزل ملتی ہے۔ غیر منکشف داریاں حیط اختیار میں آتی ہیں۔ جب یہ شخصیتیں جیتی ہیں تو مرتی ہیں اور جب مرتی ہیں تو جیتی ہیں۔
زندہ قومیں اپنے اسلاف کے کارناموں کو ماضی کے کفن میں لپیٹ کر بے حسی کی قبر میں سلانہیں دیتیں۔ آنے والی نسلوں کو ان کی ذات وصفات سے متعارف کرنے کی ہر ممکنہ جدوجہد کرتی ہیں۔ جس جذبہ محبت وعقیدت سے میں نے اس کام کو انجام دیا یہ وہ وقت تھا جب یہ ساری نعمتیں امتداد زمانہ کے ہاتھوں تلف ہوچکی ہوتیں۔
خدا کو منظور تھا کہ اتنی بڑی خدمت ایک حقیر شخص کے ذریعہ تکمیل پائے یہ میرے پاک پروردگار کا مجھ پر فضل عظیم ہے اگر چہ یہ عظیم کام جو ویب سائٹ تک پہنچا جو فیضِ خاص تھا ' فیضِ عام بنا۔ اور یہ میری برسوں کی کمائی ہے مگر یہ کوئی عظیم کارنامہ نہیں ہے۔ افسانہ کہ گفت نظیری کتاب شد
یہ مدعا نہیں کہ وفا کا صلہ ملے
بس اتنی التجا ہے کہ دادِ وفا ملے
نذیر الدین احمد
سوانح نگار
حیدرآباد دکن، آندھراپردیش (انڈیا)۔
|
|